ظہیر الدین بابر کے شب و روز
ظہیر الدین محمد بابر
(پیدائش: 1483ء - وفات: 1530ء) ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی تھا۔ انہیں ماں پیار سے بابر (شیر) کہتی تھی۔ اس کاباپ عمر شیخ مرزا فرغانہ (ترکستان) کا حاکم تھا۔ باپ کی طرف سے تیمور اور ماں قتلغ نگار خانم کی طرف سے چنگیز خان کی نسل سے تھا۔ اس طرح اس کی رگوں میں دو بڑے فاتحین کا خون تھا۔ بارہ برس کا تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا۔ چچا اور ماموں نے شورش برپا کردی جس کی وجہ سے گیارہ برس تک پریشان رہا۔ کبھی تخت پر قابض ہوتا اور کبھی بھاگ کر جنگلوں میں روپوش ہوجاتا۔ بالآخر1504ء میں بلخ اور کابل کا حاکم بن گیا۔ یہاں سے اس نے ہندوستان کی طرف اپنے مقبوضات کو پھیلانا شروع کیا۔
مغل پٹهان بابر کی چوتھی پشت میں حضرت سیف علی خان عرف سیفو بابا تھے جو سلسلہ عالیہ چشتیہ کے خلیفہ تھے آپ ہر وقت سر سفید لباس میں زیب تن رہتے اور سر پہ بهہ بہت بڑا صافہ باندهتے تھےجس کا کپڑا نو سے بارہ گز لمبا ہوتا تها آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے انتقال کے وقت آپ دہلی میں تھے کہ آپ نے اپنے فرزند ولی محمد سے کہا آج ہمارا آخری چراغ بهی بجہ گیا تم جموں کشمیر چلے جاو ولی محمد جموں آئے اور پهر جگالپار چلے آے ان کے بیٹے فقیر محمد کے دو بیٹے تھے ایک سیف علی اور ایک نظام دین تها نظام دین کے دو بیٹے تھے ایک عنایت علی اور ایک برکت علی تھے۔ برکت علی 1941 میں جگالپار سے ہجرت کرکے نلوئی میرپور آزاد کشمیر آئے پهر 1965 میں منگلا ڈیم کی بند کی وجہ سے حکومت نے خرم سنگھ کے علاقے بن خرماں میں جگہ دی اور وہاں ان کے چار بیٹے ہوئے ان میں ایک محمد بشیر ہے جو ماشاءاللہ بقید حیات ہیں اور ان کے آگے چار بیٹے ہیں جن میں ایک عثمان انجم ہے اور یہ سیفو بابا سے اب تک سب مغل پٹھان ہی کہلوانے ہیں
پہلی جنگ پانی پت:21 اپریل 1526ء
مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی شاہ دہلی کے درمیان میں 1526ء میں پانی پت کے میدان میں ہوئی۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج ایک لاکھ جوانوں پر مشتمل تھی۔ اور بابر کے ساتھ صرف بارہ ہزار آدمی تھے۔ مگر بابر خود ایک تجربہ کار سپہ سالار اور فن حرب سے اچھی طرح واقف تھا۔ سلطان ابراہیم لودھی کی فوج نے زبردست مقابلہ کیا ۔ مگر شکست کھائی۔ سلطان ابراہیم لودھیاپنے امراء اور فوج میں مقبول نہ تھا۔وہ ایک شکی مزاج انسان تھا، لاتعداد امراء اس کے ہاتھوں قتل ہوچکے تھے، یہی وجہ ہے کہ دولت خان لودھی حاکم پنجاب نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کررنے کی دعوت دی اور مالی وفوجی مدد کا یقین دلایا۔
بابراور ابراہیم لودھی کا آمناسامنا ہوا تو لودھی فوج بہت جلدتتر بتر ہوگئی۔ سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا اور بابر فاتح رہا۔ پانی پت کی جنگمیں فتح پانے کے بعد بابرنے ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بابر فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا۔ یہاں اس کا استقبال ابراہیم لودھی کی ماں بوا بیگم نے کیا۔ بابر نے نہایت ادب واحترام سے اسے ماں کا درجہ دیا۔ دہلی کے تخت پر قبضہ کر نے کے بعد سب سے پہلے اندرونی بغاوت کو فرو کیا پھر گوالیار ، حصار ، میوات ، بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔ اس کی حکومت کابل سے بنگال تک اورہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی۔ 26 دسمبر، 1530ء کو آگرہ میں انتقال کیا اور حسب وصیت کابل میں دفن ہوا۔ اس کے پڑپوتے جہانگیرنے اس کی قبر پر ایک شاندار عمارت بنوائی جو بابر باغ کے نام سے مشہور ہے۔ بارہ سال کی عمر سے مرتے دم تک اس بہادر بادشاہ کے ہاتھ سے تلوار نہ چھٹی اور بالآخر اپنی آئندہ نسل کے لیے ہندوستان میں ایک مستقل حکومت کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوا۔ تزک بابریاس کی مشہور تصنیف ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ نہ صرف تلوار کا دھنی تھا، بلکہ قلم کا بھی بادشاہ تھا۔ فارسی اور ترکی زبانوں کا شاعر بھی تھا اور موسیقی سے بھی خاصا شغف تھا۔





I am usman Anjum or ye mughal pathan wala chapter ghalt h asa kuch ni hamary shajry ma plz rwmove it
ReplyDelete